Add parallel Print Page Options

خدا کا حزقی ایل کو اسرائیل کا نگہبان بنانا

33 خداوند کا کلام مجھے ملا، اس نے کہا، “اے ابن آدم! اپنے لوگوں سے باتیں کرو۔ان سے کہو، ’ میں دشمن کے سپا ہیو ں کو اس ملک کے خلاف جنگ کے لئے لا سکتا ہوں۔ جب ایسا ہو گا تو لوگ ایک شخص کو نگہبان کے طور پر منتخب کریں گے۔ اگر نگہبان دشمن کے سپا ہیوں کو دیکھتا ہے، تو وہ نرسنگا پھونکتا ہے اور لوگوں کو ہوشیار کر تا ہے۔ اگر لو گ اس انتباہ کو سنیں لیکن ان سنی کریں تو دشمن انہیں پکڑے گا اور انہیں قیدی کی شکل میں لے جا ئے گا، یہ شخص اپنی موت کے لئے خود ذمہ دار ہو گا۔ اس نے بگل کی آواز سنی ہر انتباہ ان سنی کی۔اس لئے اپنی موت کے لئے وہ خود قصوروار ہے۔ اگر اس نے انتباہ پر توجہ دی ہو تی تووہ اپنی زندگی بچا لی ہو تی۔

’“لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ نگہبان دشمن کے سپا ہیوں کو آتا دیکھتا ہے لیکن نرسنگا نہیں بجا تا۔ اس نگہبان نے لوگوں کو انتباہ نہیں کیا۔ دشمن انہیں پکڑے گا۔ اور ہو سکتا ہے ایک آدمی کی جان لے لے۔اس شخص کو لے جا ئے گا۔ کیونکہ اسنے گنا ہ کیا۔لیکن نگہبان بھی اس آدمی کی موت کا ذمہ دار ہو گا۔‘

اب، اے ابن آدم! میں تم کو اسرائیل کے گھرانے کا نگہبان چن رہا ہوں۔ اگر تم میری زبان سے کو ئی پیغام سنو تو تمہیں میرے لئے لوگوں کو انتباہ کر نی چا ہئے۔ میں تم سے کہہ سکتا ہوں، ’ یہ گنہگار شخص یقناً مریگا۔‘ تب تمہیں اس شخص کے پاس جا کر میرے لئے انتباہ کر نی چا ہئے۔ اگر تم اس گنہگار شخص کو انتباہ نہیں کرتے اور اسے اپنی زندگی بدلنے کو نہیں کہتے تو وہ گنہگار شخص مریگا کیونکہ اسنے گنا ہ کیا۔لیکن میں تمہیں اس کی موت کا ذمہ دار ٹھہرا ؤں گا۔ لیکن اگر تم اس برے آدمی کو اپنی زندگی بدلنے کے لئے اور گناہ ترک کرنے کے لئے انتباہ کرتے ہو اور اگر وہ گناہ کرنا چھوڑ نے سے انکار کرتا ہے تو وہ مریگا کیوں کہ اس نے گناہ کیا۔ لیکن تم نے اپنی زندگی بچا لی۔

خدا لوگوں کو فنا کرنا نہیں چاہتا

10 “اس لئے اے ابن آدم! اسرائیل کے گھرانے سے میرے لئے کہو۔ وہ لوگ کہتے ہیں، ’تم لوگوں نے گناہ کیا ہے۔ اور آئین کو توڑا ہے۔ ہمارے گناہ ہماری قوت سے باہر ہیں۔ ہم ان گناہوں کے سبب بر باد ہو رہے ہیں۔ ہم زندہ رہنے کے لئے کیا کر سکتے ہیں۔”

11 “تمہیں ان سے کہنا چاہئے، “خدا وند میرا مالک کہتا ہے: میں اپنی زندگی کی قسم کھا کر یقین دلا تا ہوں کہ میں لوگوں کو مرتے ہوئے دیکھ کر خوش نہیں ہوں، گنہگار لوگوں کو بھی نہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ مریں۔ میں چاہتا ہوں کہ گنہگار لوگ میر ی طرف لوٹيں میں چاہتا ہوں کہ وہ اپنی زندگی کے راستہ کو بدلیں تاکہ زند وہ رہ سکیں۔ اس لئے میرے پاس لوٹو! برے کام کرنا چھوڑو! اے اسرائیل کے گھرانو! تمہیں کیوں مرنا چاہئے؟ '

12 “اے ابن آدم! اپنے لوگوں سے کہو: ' اگر کسی شخص نے ماضی میں نیکی کی ہے تو اس سے اسکی زندگی نہیں بچے گی۔ اگر وہ بچ جائے اور گناہ کرنا شروع کرے۔ اگر کسی شخص نے ماضی میں گناہ کیا، تو وہ فنا نہیں کیا جائے گا، اگر وہ گناہ سے دور ہٹ جاتا ہے۔ اس لئے یاد رکھو، ایک شخص کی معرفت ماضی میں کئے گئے نیک عمل اس کی حفاظت نہیں کریں گے، اگر وہ گناہ کرنا شروع کرتا ہے۔‘

13 یہ ہوسکتا ہے کہ میں کسی اچھے شخص کے لئے کہو ں کہ وہ یقیناً زندہ رہے گا۔ لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ وہ اچھا شخص یہ سوچنا شروع کرے کہ ماضی میں اسکی جانب سے کئے گئے اچھے اعمال اسکی حفاظت کریں گے۔ اس لئے وہ برے کام شروع کر سکتا ہے۔ اس حالت میں میں اسکی ماضی کی نیکیوں پر توجہ نہیں دوں گا۔ نہیں! وہ ان گناہوں کے سبب مریگا جنہیں اس نے کرنا شروع کر دیا ہے۔

14 “یا ہوسکتا ہے کہ میں کسی گنہگار شخص کے لئے کہونگا کہ وہ یقیناً مریگا۔ لیکن وہ اپنی زندگی کو بدل سکتا ہے۔ وہ گناہ کرنا چھوڑ سکتا ہے اور اچھی زندگی شروع کرسکتا ہے۔ جو اچھا اور جائز ہو اسے کر سکتا ہے۔ 15 وہ ضمانت کو لوٹا سکتا ہے جسے اس نے اپنے پاس قرض دیتے وقت رکھا تھا۔ وہ ان چیزوں کا بدلہ چکا سکتا ہے جنہیں اس نے چرایا تھا۔ وہ ان آئین کو قبول کرسکتا ہے جو زندگی دیتے ہیں۔ وہ برے کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ تب وہ شخص یقیناً ہی زندہ رہے گا۔ وہ مرے گا نہیں۔ 16 میں اسکے ماضی کے گناہوں کو یاد نہیں کروں گا۔ کیوں کہ وہ جو اچھا اور جائز ہے اسے کرتا ہے۔ اس لئے وہ یقیناً زندہ رہے گا۔ 17 “لیکن تمہارے لوگ کہتے ہیں، ’ یہ بہتر نہیں ہے! خدا وند میرا مالک ویسا نہیں کر سکتا ہے۔‘ ” لیکن یہ انکا راستہ ہے جو جائز نہیں ہے۔ 18 اگر اچھا شخص نیکی کرنا بند کردیتا ہے اور گناہ کرنا شروع کرتا ہے تو وہ اپنے گناہوں کے سبب مریگا۔ 19 “اور اگر کوئی گنہگار گناہ کرنا چھوڑ دیتا ہے اور جو اچھا اور جائز ہو اسے کرنا شروع کردیتا ہے تو وہ زندہ رہے گا۔ 20 لیکن تم لوگ اب بھی کہتے ہو کہ میں جائز پر نہیں ہوں۔ لیکن اے بنی اسرائیلیو! میں تم میں سے ہر ایک کا تمہارے کرتوت کے مطابق فیصلہ کروں گا!”

یروشلم کا لے لیا جانا

21 جلاوطنی کے بارھویں برس میں، دسویں مہینے (جنوری) کے پانچویں دن ایک شخص میرے پاس یروشلم سے آیا۔ وہ وہاں کی جنگ سے بچ نکلا تھا۔اس نے کہا، “شہر (یروشلم ) پر قبضہ ہو گیا۔”

22 جس دن بچ کر نکلنے وا لا وہ شخص میرے پاس آیا اس سے قبل کی شام کو خداوند، میرے مالک کی قدرت مجھ پر اتری۔ صبح میں جس وقت وہ شخص میرے پا س آیا خداوند نے میرا منہ کھول دیا اور پھر مجھے بولنے کی اجازت دی۔ 23 تب خداوند کا کلام مجھے ملا۔اس نے کہا، 24 “اے ابن آدم! اسرائیل کے تباہ شدہ علاقے میں اسرائیلی لوگ رہ رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں، ’ابراہیم صرف ایک شخص تھا اور خدا نے اسے یہ ساری زمین دے دی تھی۔ اب ہم کئی لوگ ہیں اس لئے یقیناً ہی یہ زمین ہم لوگو ں کی ہے! یہ ہماری زمین ہے۔‘

25 “تمہیں ان سے کہنا چا ہئے کہ خداوند اور مالک کہتا ہے، ’ تم لوگ لہو سمیت گوشت کھا تے ہو۔ تم لوگ اپنی مورتیوں سے مدد کی امید کر تے ہو۔ تم لوگوں کو مار ڈا لتے ہو۔اس لئے میں تم لوگوں کو یہ زمین کیوں دو ں؟ 26 تم اپنی تلوار پر بھروسہ کر تے ہو۔ تم میں سے ہر ایک بھیانک گنا ہ کرتا ہے۔ تم میں سے ہر ایک اپنی پڑوسی کی بیوی کے ساتھ بدکاری کر تا ہے۔اس لئے تم زمین نہیں پاسکتے۔‘

27 “تمہیں کہنا چا ہئے کہ خداوند اور مالک یہ کہتا ہے، “میں اپنی زندگی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو لوگ ان تبا ہ شدہ شہرو ں میں رہتے ہیں وہ تلوار سے ہلاک کئے جا ئیں گے۔اگر کو ئی شخص اس ملک سے با ہر ہو گا تو میں اسے جانوروں سے ہلاک کرا ؤں گا اور انہیں کھلا ؤں گا۔ اگر لوگ قلعہ اور غارو ں میں چھپے ہونگے وہ وبا سے مریں گے۔ 28 میں زمین کو ویران اور برباد کرو ں گا۔ وہ ملک ان سبھی چیزوں کو کھو دے گا جن پر اسے فخر تھا۔اسرائیل کے پہاڑ ویران ہو جا ئیں گے۔اس مقام سے کو ئی نہیں گذرے گا۔ 29 ان لوگوں نے کئی بھیانک گنا ہ کئے ہیں۔اس لئے میں اس ملک کو ویران اور برباد کرو ں گا۔ تب وہ لوگ جان جا ئیں گے کہ میں خداوند ہوں۔”

30 “اب تمہا رے بارے میں اے ابن آدم! تمہا رے لوگ دیواروں کے سہا رے جھکے ہو ئے اور اپنے دروازو ں میں کھڑے ہیں اور وہ تمہا رے با رے میں بات کر تے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں، “آؤ! ہم جا کر سنیں جو خداوند کہتا ہے۔” 31 اس لئے وہ تمہا رے پاس ویسے ہی آئیں گے جیسے وہ میرے لوگ ہوں۔ وہ تمہا رے سامنے میرے لوگوں کی طرح بیٹھیں گے۔ وہ تمہا را پیغام سنیں گے۔ لیکن وہ لوگ وہ کام نہیں کریں گے جو تم کہو گے۔ وہ صرف وہی کرنا چا ہتے ہیں جسے وہ اچھا محسوس کر تے ہیں۔انکا دل صرف نفع تلاش کر تا ہے۔ 32 “تم ان لوگوں کی نگاہ میں محبت کی نغمہ سرائی کرنے وا لے سے زیادہ بہتر نہیں ہو۔ تمہا ری آواز اچھی ہے تم اپنا ساز بھی اچھا بجاتے ہو۔ وہ تمہا را پیغام سنیں گے۔ لیکن وہ ویسا نہیں کریں گے جو تم کہتے ہو۔ 33 لیکن جن چیزوں کے با رے میں تم گا تے ہو، وہ سچ مچ ہونگے اور تب سمجھیں گے کہ ان کے بیچ سچ مچ میں ایک نبی رہتا تھا!”

Renewal of Ezekiel’s Call as Watchman

33 The word of the Lord came to me: “Son of man, speak to your people and say to them: ‘When I bring the sword(A) against a land, and the people of the land choose one of their men and make him their watchman,(B) and he sees the sword coming against the land and blows the trumpet(C) to warn the people, then if anyone hears the trumpet but does not heed the warning(D) and the sword comes and takes their life, their blood will be on their own head.(E) Since they heard the sound of the trumpet but did not heed the warning, their blood will be on their own head.(F) If they had heeded the warning, they would have saved themselves.(G) But if the watchman sees the sword coming and does not blow the trumpet to warn the people and the sword comes and takes someone’s life, that person’s life will be taken because of their sin, but I will hold the watchman accountable for their blood.’(H)

“Son of man, I have made you a watchman(I) for the people of Israel; so hear the word I speak and give them warning from me.(J) When I say to the wicked, ‘You wicked person, you will surely die,(K)’ and you do not speak out to dissuade them from their ways, that wicked person will die for[a] their sin, and I will hold you accountable for their blood.(L) But if you do warn the wicked person to turn from their ways and they do not do so,(M) they will die for their sin, though you yourself will be saved.(N)

10 “Son of man, say to the Israelites, ‘This is what you are saying: “Our offenses and sins weigh us down, and we are wasting away(O) because of[b] them. How then can we live?(P)”’ 11 Say to them, ‘As surely as I live, declares the Sovereign Lord, I take no pleasure in the death of the wicked, but rather that they turn from their ways and live.(Q) Turn!(R) Turn from your evil ways! Why will you die, people of Israel?’(S)

12 “Therefore, son of man, say to your people,(T) ‘If someone who is righteous disobeys, that person’s former righteousness will count for nothing. And if someone who is wicked repents, that person’s former wickedness will not bring condemnation. The righteous person who sins will not be allowed to live even though they were formerly righteous.’(U) 13 If I tell a righteous person that they will surely live, but then they trust in their righteousness and do evil, none of the righteous things that person has done will be remembered; they will die for the evil they have done.(V) 14 And if I say to a wicked person, ‘You will surely die,’ but they then turn away from their sin and do what is just(W) and right— 15 if they give back what they took in pledge(X) for a loan, return what they have stolen,(Y) follow the decrees that give life, and do no evil—that person will surely live; they will not die.(Z) 16 None of the sins(AA) that person has committed will be remembered against them. They have done what is just and right; they will surely live.(AB)

17 “Yet your people say, ‘The way of the Lord is not just.’ But it is their way that is not just. 18 If a righteous person turns from their righteousness and does evil,(AC) they will die for it.(AD) 19 And if a wicked person turns away from their wickedness and does what is just and right, they will live by doing so.(AE) 20 Yet you Israelites say, ‘The way of the Lord is not just.’ But I will judge each of you according to your own ways.”(AF)

Jerusalem’s Fall Explained

21 In the twelfth year of our exile, in the tenth month on the fifth day, a man who had escaped(AG) from Jerusalem came to me and said, “The city has fallen!(AH) 22 Now the evening before the man arrived, the hand of the Lord was on me,(AI) and he opened my mouth(AJ) before the man came to me in the morning. So my mouth was opened and I was no longer silent.(AK)

23 Then the word of the Lord came to me: 24 “Son of man, the people living in those ruins(AL) in the land of Israel are saying, ‘Abraham was only one man, yet he possessed the land. But we are many;(AM) surely the land has been given to us as our possession.’(AN) 25 Therefore say to them, ‘This is what the Sovereign Lord says: Since you eat(AO) meat with the blood(AP) still in it and look to your idols and shed blood, should you then possess the land?(AQ) 26 You rely on your sword, you do detestable things,(AR) and each of you defiles his neighbor’s wife.(AS) Should you then possess the land?’

27 “Say this to them: ‘This is what the Sovereign Lord says: As surely as I live, those who are left in the ruins will fall by the sword, those out in the country I will give to the wild animals to be devoured, and those in strongholds and caves will die of a plague.(AT) 28 I will make the land a desolate waste, and her proud strength will come to an end, and the mountains(AU) of Israel will become desolate so that no one will cross them.(AV) 29 Then they will know that I am the Lord, when I have made the land a desolate(AW) waste because of all the detestable things they have done.’(AX)

30 “As for you, son of man, your people are talking together about you by the walls and at the doors of the houses, saying to each other, ‘Come and hear the message that has come from the Lord.’ 31 My people come to you, as they usually do, and sit before(AY) you to hear your words, but they do not put them into practice. Their mouths speak of love, but their hearts are greedy(AZ) for unjust gain.(BA) 32 Indeed, to them you are nothing more than one who sings love songs(BB) with a beautiful voice and plays an instrument well, for they hear your words but do not put them into practice.(BC)

33 “When all this comes true—and it surely will—then they will know that a prophet has been among them.(BD)

Footnotes

  1. Ezekiel 33:8 Or in; also in verse 9
  2. Ezekiel 33:10 Or away in