Add parallel Print Page Options

امنون اور تمر

13 داؤد کا ایک بیٹا ابی سلوم تھا۔ ابی سلوم کی بہن کا نام تمر تھا۔ تمر بہت خوبصورت تھی۔ داؤ دکے اور بیٹوں میں سے ایک امنون تھا۔ وہ تمر سے محبت کرتا تھا۔ تمر پاک دامن کنواری تھی۔ امنون اس کو بہت چاہتا تھا۔ امنون اس کے بارے میں اتنا سوچنے لگا کہ وہ بیمار ہو گیا۔ اور ا سکے ساتھ کچھ کرنا اسکو نا ممکن معلوم ہوا۔ [a]

امنون کا یوندب نام کا ایک دوست تھا۔ جو سمعہ کا بیٹا تھا ( سمعہ داؤد کا بھا ئی تھا ) یوندب بہت چالاک آدمی تھا۔ یوندب نے امنون سے کہا ، “ہر روز تم زیادہ سے زیادہ دُبلے دکھا ئی دیتے ہو۔ تم بادشاہ کے بیٹے ہو تمہیں کھانے کے لئے بہت کچھ ہے پھر بھی تم اپنا وزن کیوں کھو تے جا رہے ہو ؟”

امنون نے یوندب سے کہا ، “میں تمر سے محبت کرتا ہوں لیکن وہ میرے سوتیلے بھا ئی ابی سلوم کی بہن ہے۔”

یوندب نے امنون سے کہا ، “اپنے بستر پر جا ؤ اور بیمار ہو نے جیسا بہانہ کرو تب تمہا را باپ تمہیں دیکھنے آئیں گے۔ تم ان سے کہنا براہ کرم میری بہن تمر کو آنے دیجئے اور اسے مجھے کھانے کے لئے دینے دو۔ اس کو میرے سامنے کھانا بنانے دو تب میں اسے دیکھوں گا اور اس کے ہا تھ سے کھا ؤں گا۔”

اس لئے امنون بستر پر لیٹ گیا اور بیمار ہو نے کا بہانہ کیا۔ بادشاہ داؤد امنون کو دیکھنے اندر آیا۔ امنون نے بادشاہ داؤد سے کہا ، “براہ کرم میری بہن تمر کو اندر آنے دیں اس کو میرے لئے دو کیک بنانے دیں۔ میں اسے دیکھو ں گا اور تب میں اس کے ہا تھ سے کھا ؤں گا۔

داؤد نے تمر کے گھر قاصدوں کو بھیجا۔قاصدوں نے تمر سے کہا ، “تم اپنے بھا ئی امنون کے گھر جا ؤ اور اس کے لئے کھانا بنا ؤ۔

تمر کا امنون کے لئے غذا تیار کرنا

اس لئے تمر اس کے بھا ئی امنون کے گھر گئی امنون بستر میں تھا۔ تمر نے کچھ گوندھا ہوا آٹا لیا اور امنون کے سامنے اپنے ہا تھوں سے دباکر کیک پکا ئے۔ تب تمر نے کیک کڑھائی سے نکالیں اور امنون کے لئے رکھی لیکن امنون نے کھانے سے انکار کیا۔ امنون نے اپنے خادموں کو حکم دیا ، “گھر سے باہر چلے جا ئیں میں اکیلا رہنا چا ہتا ہوں” اس لئے وہ سب کمرے چھو ڑ کر نکل گئے۔

امنون کا تمر کی عصمت دری کرنا

10 تب امنون نے تمر سے کہا ، “کھانا اندر والے کمرے میں لے چلو اور مجھے ہا تھ سے کھلا ؤ۔”

اس لئے تمر نے جو کیک پکا ئے تھے وہ لئے اور بھا ئی کے سونے کے کمرے میں گئی۔ 11 اس نے امنون کو کھلانا شروع کیا لیکن اس نے اس کا ہا تھ پکڑ لیا اور اس کو کہا ، “بہن آؤ اور میرے ساتھ سو جا ؤ۔”

12 تمرنے امنون سے کہا ، “نہیں بھائی ! مجھے ایسا کرنے کے لئے زبردستی نہ کرو۔ ایسی بے شر م حرکت نہ کرو ایسی بھیانک باتیں اسرا ئیل میں کبھی نہ ہوں گی۔ 13 میں اپنی شرم کو کبھی نہیں چھو ڑوں گی۔ اور لوگ تمہیں ایک عام مجرم کی مانند سمجھیں گے۔ براہ کرم بادشاہ سے بات کرو۔ وہ تم کو مجھ سے شادی کرنے دے گا۔”

14 لیکن امنو ن نے تمر کی بات سننے سے انکار کیا۔ وہ تمر سے زیادہ طاقتور تھا اس نے اس پر جبر کیا کہ اس سے جنسی تعلقات کرے۔ 15 تب امنو ن نے تمر سے نفرت شروع کی۔ امنو ن نے اس سے اتنی زیادہ نفرت کی کہ جتنا کہ پہلے وہ محبت کرتا تھا۔ امنون نے تمر سے کہا ، “اٹھو اور یہاں سے چلی جا ؤ۔”

16 تمر نے امنو ن سے کہا ، “نہیں مجھے اس طرح نہ بھیجو اگر تم مجھے باہر بھیجے تو تم پہلے گناہ سے بھی زیادہ گناہ کر رہے ہو۔”

لیکن امنو ن نے تمر کی بات سننے سے انکار کیا۔ 17 امنو ن نے اپنے خادم کو بلا یا اور کہا ، “اس لڑکی کو کمرے سے باہر کرو اب اور اس کے جانے کے بعد دروازہ میں تا لا لگا دو۔”

18 اس لئے امنون کے خادم تمر کو کمرے کے باہر لے گیا اور اس کے جانے کے بعد کمرہ میں تا لا لگا دیا۔

تمر ایک لمبا چغہ کئی رنگوں وا لا پہنے تھی۔ بادشا ہ کی کنواری بیٹیاں ایسے ہی چغہ پہنتی تھیں۔ 19 تمر نے اس کئی رنگوں والے چغے کو پھا ڑ دیا اور خاک اپنے سر پر ڈا ل لی تب وہ اپنے ہا تھ اپنے سر پر رکھی اور روتی ہو ئی چلی گئی۔

20 تب تمر کے بھا ئی ا بی سلوم نے اس سے کہا ، “کیا تم اپنے بھا ئی امنون کے ساتھ تھیں ؟ کیا اس نے تمہیں چوٹ پہنچا ئی ؟ اب خاموش ہو جا ؤ میری بہن ! [b] امنون تمہا را بھا ئی ہے ہم لوگ معاملہ کو دیکھیں گے۔ اس کی وجہ سے تم بہت زیادہ پریشان مت ہو۔” تمر جواب نہ دے سکی۔ وہ اپنے بھا ئی ابی سلوم کے گھر میں رہی۔ وہ غمزدہ اور بے کس پڑی رہی۔

21 بادشاہ داؤد نے یہ خبر سنی اور بہت غصّہ ہو ئے۔ 22 ابی سلوم نے امنون سے نفرت شروع کر دی۔ ابی سلوم نے ایک لفظ اچھا یا بُرا امنون کو نہیں کہا۔ ابی سلوم نے امنو ن سے نفرت کی کیو ں کہ امنو ن نے اسکی بہن تمر کی عصمت دری کی تھی۔

ابی سلوم کا بدلہ

23 دوسال بعد ابی سلوم کے پاس بعل حصور اس کی بھیڑوں کے اُون کاٹنے آئے۔ ابی سلوم نے بادشاہ کے تمام بیٹوں کو مدعو کیا کہ آئیں اور دیکھیں۔ 24 ابی سلوم بادشا ہ کے پاس گیا اور کہا ، “میرے پاس کچھ آدمی میری بھیڑوں کے اُون کاٹنے آرہے ہیں براہ کرم اپنے خادموں کے ساتھ آئیں اور دیکھیں۔ ”

25 بادشاہ داؤد نے ابی سلوم سے کہا ، “نہیں بیٹے ! ہم سب نہیں جا ئیں گے۔ اس سے تمہیں بہت زیادہ پریشانی ہو گی۔”

ابی سلوم نے داؤد سے جانے کے لئے منّت کی۔ داؤد نہیں گیا لیکن اس نے دعائیں دیں۔

26 ابی سلوم نے کہا ، “اگر آپ نہیں جانا چا ہتے تو میرے بھا ئی امنون کو میرے ساتھ جانے دیجئے۔”

بادشاہ داؤد نے ابی سلوم سے پو چھا ، “اس کو تمہا رے ساتھ کیوں جانا ہو گا ؟”

27 ابی سلوم داؤد سے منّت کرتا رہا آخر کا ر داؤد نے امنو ن اور اپنے تمام بیٹوں کو ابی سلوم کے ساتھ جانے دیا۔

امنون کا قتل کیا جانا

28 تب ابی سلوم نے اپنے خادم کو حکم دیا ، “امنون پر نظر رکھو وہ نشہ میں ہو گا۔ جب ایسا ہو گا تو میں تمہیں حکم دونگا۔ تب تمہیں امنون پرحملہ کرنا اور اسکو مارڈالنا چاہئے۔ تم سزا سے مت ڈرو۔ تم میرے حکم کی تعمیل کروگے اس لئے کوئی تمہیں سزا نہیں دیگا۔ طاقتور اور بہادر بنو ! ”

29 اس لئے ابی سلوم کے لوگوں نے وہی کیا جو اس نے حکم دیا انہوں نے امنون کو مار ڈا لا لیکن داؤد کے دوسرے بیٹے خچر پر سوار ہو کر فرار ہو گئے۔

داؤد کا امنون کی موت کے متعلق سننا

30 بادشاہ کے بیٹے ابھی تک شہر کے راستے پرہی تھے لیکن جو کچھ ہوا تھا وہ بادشاہ داؤد نے سنا۔ خبر یہ تھی “ابی سلوم نے بادشاہ کے تمام بیٹوں کو مارڈا لا ایک بیٹا بھی زندہ نہیں بچا۔ ”

31 بادشاہ داؤد نے اپنے کپڑے پھاڑ ڈا لے اور فرش پر لیٹ گیا۔ داؤد کے تمام افسر اس کے قریب کھڑے تھے وہ بھی اپنے کپڑے پھاڑ لئے۔

32 تب داؤد کے بھائی سمع کا بیٹا یوندب نے کہا ، “یہ مت سوچئے کہ بادشاہ کے تمام بیٹے مار دیئے گئے صرف امنون کو مارا گیا ہے۔ ابی سلوم اس دن سے یہ منصوبہ بنا رہا تھا جس دن امنون نے اس کی بہن تمر کی عصمت دری کی تھی۔ 33 میرے آقا اور بادشاہ یہ مت سوچو کہ تمہارے تمام بیٹے مر گئے۔ صرف امنون مارا گیا ہے۔ ”

34 ابی سلوم بھا گ گیا۔

شہر کے دروازے پر ایک محافظ تھا اس نے دیکھا کئی لوگ پہا ڑی کے دوسری جانب سے شہر کی طرف آرہے ہیں۔ وہ بادشاہ کے پاس گیا اور اسکے بارے میں بادشاہ سے کہا، “ 35 اس لئے یوندب نے بادشاہ داؤد سے کہا ، “دیکھو ! میں نے صحیح کہا تھا بادشاہ کے بیٹے آرہے ہیں۔ ”

36 بادشاہ کے بیٹے اسی وقت آئے جس وقت یوندب نے کہا تھا۔ وہ بلند آواز سے رو رہے تھے داؤد اور اسکے تمام افسر بھی رونا شروع کئے وہ تمام شدّت سے رو ئے۔ 37 داؤد اپنے بیٹے ( امنون ) کیلئے ہر روز روتا رہا۔

ابی سلوم کا جسور کو بھا گنا

ابی سلوم جسور کے بادشاہ تلمی جو عمّیہود کا بیٹا تھا اسکے پاس بھاگ گیا۔ 38 ابی سلوم کے جسور کو بھاگنے کے بعد وہ وہاں تین سال رہا۔ 39 بادشاہ داؤد امنون کے مر نے کے بعد تسلّی بخش ہوگیا تھا لیکن اسے ابی سلوم کی کمی محسوس ہو رہی تھی۔

Footnotes

  1. دوم سموئیل 13:2 اور اس کے … معلوم ہوا وہ ایک پاک دامن کنواری ہے اور آدمیوں سے دور رہتی ہے ، امنون سوچتا ہے کہ اس کے ساتھ تنہا ہو نا ناممکن ہے۔
  2. دوم سموئیل 13:20 اب … میری بہن ابی سلوم نے تمر سے کہا -

Amnon and Tamar

13 In the course of time, Amnon(A) son of David fell in love with Tamar,(B) the beautiful sister of Absalom(C) son of David.

Amnon became so obsessed with his sister Tamar that he made himself ill. She was a virgin, and it seemed impossible for him to do anything to her.

Now Amnon had an adviser named Jonadab son of Shimeah,(D) David’s brother. Jonadab was a very shrewd man. He asked Amnon, “Why do you, the king’s son, look so haggard morning after morning? Won’t you tell me?”

Amnon said to him, “I’m in love with Tamar, my brother Absalom’s sister.”

“Go to bed and pretend to be ill,” Jonadab said. “When your father comes to see you, say to him, ‘I would like my sister Tamar to come and give me something to eat. Let her prepare the food in my sight so I may watch her and then eat it from her hand.’”

So Amnon lay down and pretended to be ill. When the king came to see him, Amnon said to him, “I would like my sister Tamar to come and make some special bread in my sight, so I may eat from her hand.”

David sent word to Tamar at the palace: “Go to the house of your brother Amnon and prepare some food for him.” So Tamar went to the house of her brother Amnon, who was lying down. She took some dough, kneaded it, made the bread in his sight and baked it. Then she took the pan and served him the bread, but he refused to eat.

“Send everyone out of here,”(E) Amnon said. So everyone left him. 10 Then Amnon said to Tamar, “Bring the food here into my bedroom so I may eat from your hand.” And Tamar took the bread she had prepared and brought it to her brother Amnon in his bedroom. 11 But when she took it to him to eat, he grabbed(F) her and said, “Come to bed with me, my sister.”(G)

12 “No, my brother!” she said to him. “Don’t force me! Such a thing should not be done in Israel!(H) Don’t do this wicked thing.(I) 13 What about me?(J) Where could I get rid of my disgrace? And what about you? You would be like one of the wicked fools in Israel. Please speak to the king; he will not keep me from being married to you.” 14 But he refused to listen to her, and since he was stronger than she, he raped her.(K)

15 Then Amnon hated her with intense hatred. In fact, he hated her more than he had loved her. Amnon said to her, “Get up and get out!”

16 “No!” she said to him. “Sending me away would be a greater wrong than what you have already done to me.”

But he refused to listen to her. 17 He called his personal servant and said, “Get this woman out of my sight and bolt the door after her.” 18 So his servant put her out and bolted the door after her. She was wearing an ornate[a] robe,(L) for this was the kind of garment the virgin daughters of the king wore. 19 Tamar put ashes(M) on her head and tore the ornate robe she was wearing. She put her hands on her head and went away, weeping aloud as she went.

20 Her brother Absalom said to her, “Has that Amnon, your brother, been with you? Be quiet for now, my sister; he is your brother. Don’t take this thing to heart.” And Tamar lived in her brother Absalom’s house, a desolate woman.

21 When King David heard all this, he was furious.(N) 22 And Absalom never said a word to Amnon, either good or bad;(O) he hated(P) Amnon because he had disgraced his sister Tamar.

Absalom Kills Amnon

23 Two years later, when Absalom’s sheepshearers(Q) were at Baal Hazor near the border of Ephraim, he invited all the king’s sons to come there. 24 Absalom went to the king and said, “Your servant has had shearers come. Will the king and his attendants please join me?”

25 “No, my son,” the king replied. “All of us should not go; we would only be a burden to you.” Although Absalom urged him, he still refused to go but gave him his blessing.

26 Then Absalom said, “If not, please let my brother Amnon come with us.”

The king asked him, “Why should he go with you?” 27 But Absalom urged him, so he sent with him Amnon and the rest of the king’s sons.

28 Absalom(R) ordered his men, “Listen! When Amnon is in high(S) spirits from drinking wine and I say to you, ‘Strike Amnon down,’ then kill him. Don’t be afraid. Haven’t I given you this order? Be strong and brave.(T) 29 So Absalom’s men did to Amnon what Absalom had ordered. Then all the king’s sons got up, mounted their mules and fled.

30 While they were on their way, the report came to David: “Absalom has struck down all the king’s sons; not one of them is left.” 31 The king stood up, tore(U) his clothes and lay down on the ground; and all his attendants stood by with their clothes torn.

32 But Jonadab son of Shimeah, David’s brother, said, “My lord should not think that they killed all the princes; only Amnon is dead. This has been Absalom’s express intention ever since the day Amnon raped his sister Tamar. 33 My lord the king should not be concerned about the report that all the king’s sons are dead. Only Amnon is dead.”

34 Meanwhile, Absalom had fled.

Now the man standing watch looked up and saw many people on the road west of him, coming down the side of the hill. The watchman went and told the king, “I see men in the direction of Horonaim, on the side of the hill.”[b]

35 Jonadab said to the king, “See, the king’s sons have come; it has happened just as your servant said.”

36 As he finished speaking, the king’s sons came in, wailing loudly. The king, too, and all his attendants wept very bitterly.

37 Absalom fled and went to Talmai(V) son of Ammihud, the king of Geshur. But King David mourned many days for his son.

38 After Absalom fled and went to Geshur, he stayed there three years. 39 And King David longed to go to Absalom,(W) for he was consoled(X) concerning Amnon’s death.

Footnotes

  1. 2 Samuel 13:18 The meaning of the Hebrew for this word is uncertain; also in verse 19.
  2. 2 Samuel 13:34 Septuagint; Hebrew does not have this sentence.