Add parallel Print Page Options

23 پولس نے یہودی عدالت والوں کو غور سے دیکھ کر کہا، “اے بھائیو! میری زندگی آج نیک دلی سے خدا کی راہ میں گزری ہے اور جو بھی میں نے ٹھیک سمجھا وہی کیا۔” اعلیٰ کاہن حننیاہ بھی وہاں تھا اس نے ان آدمیوں کو جو پولس کے قریب تھے کہا کہ پو لس کے منھ پر طمانچے مارو۔ پو لس نے حننیاہ سے کہا، “تو ایک ایسی گندی دیوار ہے جسے اوپر سے سفیدی کی گئی ہے خدا تجھے بھی ما ریگا تو شریعت کے مطا بق فیصلہ کر نے کے لئے ہے لیکن تو مجھے مارنے کے لئے حکم دے رہا ہے جو موسیٰ کی شریعت کے خلاف ہے۔”

جو لوگ پو لس کے قریب کھڑے تھے انہوں نے کہا، “تم اس قسم کی باتیں اعلیٰ کا ہن سے نہیں کہہ سکتے تم انکی بے عزتی کر رہے ہو۔”

پو لس نے کہا، “بھا ئیو مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ اعلیٰ کا ہن ہے صحیفوں میں لکھا ہے کہ تم اپنے اعلیٰ کا ہن کو برا نہ کہو۔” [a]

اس مجلس میں کچھ صدوقی اور کچھ فریسی بھی تھے اس لئے پو لس کو ایک ترکیب سوجھی اس نے کہا، “بھا ئیو! میں فریسی ہوں اور میرے باپ دادا بھی فریسی تھے۔ مجھ پرمقدمہ اس لئے ہو رہا ہے کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ لوگ مر نے کے بعد اٹھا ئے جائیں گے۔”

جب پو لس نے یہ کہا تو فریسیوں اور صدوقیوں میں تکرار بحث شروع ہو ئی اور وہ دو گروہ میں بٹ گئے۔ صدوقیوں کا عقیدہ ہے کہ لوگ مرنے کے بعد دوبارہ جی نہیں اٹھیں گے اوروہ فرشتہ میں اور نہ کو ئی روح میں عقیدہ رکھتے ہیں مگر فریسی کا دونوں پر عقیدہ ہے۔ تمام یہودی زور شور سے چلا نا شروع کیا اور فریسیوں میں سے بعض شریعت کے معلمین اٹھے اور بحث کی اور کہا، “ہم اس آدمی میں کو ئی برا عمل نہیں پا تے، ہو سکتا ہے دمشق کے راستے میں کسی فرشتہ یا روح نے اس سے کلام کیا ہو۔”

10 بحث و تکرار لڑائی میں تبدیل ہو گئی اور پلٹن کے سردار نے خوف محسوس کیا کہ کہیں یہودی پو لس کے ٹکڑے ٹکڑے نہ کر ڈا لیں اس لئے سپاہیوں کو حکم دیا کہ پو لس کو ان میں سے نکال کر قلعہ میں لے آؤ۔

11 دوسری شب خداوند یسوع پو لس کے پاس آ کھڑے ہو ئے اور کہا، “ہمت رکھ جس طرح تو نے یروشلم میں میری گواہی دی اسی طرح تجھے روم میں بھی میری گوا ہی دینی ہو گی۔”

کچھ یہودیوں کا پو لس کو مار نے کا منصوبہ بنانا

12 دوسری صبح کچھ یہودیوں نے پو لس کو مار ڈا لنے کی سازش بنائی۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ جب تک وہ پو لس کو قتل نہیں کریں گے وہ کچھ بھی نہیں کھا ئیں گے اور نہ پئیں گے۔ 13 جنہوں نے یہ منصوبہ بنایا تعداد میں چالیس سے زیادہ تھے۔ 14 انہوں نے یہودی کا ہنوں کے رہنما اور بزرگ قائدین کے پاس جا کر کہا، “وہ قسم کھا ئے ہیں کہ جب تک ہم پو لس کو قتل نہ کریں گے ہم کو ئی چیز اپنے منھ میں نہ ڈا لیں گے نہ کھا ئیں گے نہ ہی پیئیں گے۔ 15 اور اب تم پلٹن کے سردار کو اپنی طرف سے اور صدر عدالت کی جانب سے پیغام بھیجو تم انہیں لکھو کہ وہ پولس کو تمہارے سامنے پیش کرے جب وہ آرہا ہو تو پولس کے مقدمہ میں مزید تفتیش کرے اسی اثناء میں ہم تیا رہیں کہ اسے راہ میں ختم کر دیں۔”

16 لیکن پولس کے بھتیجے کو یہ منصوبہ معلوم ہو گیا وہ قلعہ میں گیا اور پو لس کو اس کے متعلق اطلاع دی اس لئے پو لس نے ایک فوجی افسر کو بلایا اور کہا۔ 17 “اس نوجوان کو سردار کے پاس لے جاؤ یہ اس کے لئے یہ ایک پیغام لا یا ہے۔” 18 اور فوجی افسر نے پولس کے بھتیجے کو پلٹن کے سردار کے پاس لے گیا اور کہا، “قیدی پو لس نے مجھ سے کہا کہ اس نوجوان کو آپ کے پاس لے جاؤں کیوں کہ یہ آپ کے لئے کوئی پیغام لا یا ہے۔”

19 پلٹن کے سردار نے اس نوجوان کو تنہائی میں لا کر کہا، “کہہ دے کہ تو مجھ سے کیا کہنا چاہتا ہے؟۔” 20 نو جوان نے کہا، “یہودیوں نے اتفاق کیا ہے کہ آپ اسے کہیں کہ پو لس کو کل صدر عدالت میں لے آئیں تا کہ وہ اس سے پولس کے مقدمہ میں مزید تحقیق کریں۔ 21 لیکن آپ ان کا یقین نہ کریں وہ چالیس سے زیادہ یہودی ہیں جو پو لس کو مار ڈالنا چاہتے ہیں ان لوگوں نے پو لس کو مار نے کے لئے قسم کھا ئی ہے کہ جب تک اسے نہ ماریں گے وہ کو ئی چیز نہ کھا ئیں گے نہ پئیں گے۔ وہ اب تیار ہیں صرف آپ کی مرضی کے انتظار میں ہیں۔”

22 سردار نے نو جوان کو یہ کہتے ہو ئے بھیج دیا، “کسی کو بھی یہ معلوم نہ ہو نے دینا کہ تم نے مجھ سے کچھ کہا ہے۔”

پولس کو قیصریہ بھیجا جا نا

23 پلٹن کے سردار نے صوبہ داروں کو بلا کر کہا، “دو سو سپا ہی اور ستر سوار اور دو سو نیزہ بر دار رات گئے قیصریہ جا نے کو تیار رکھنا۔ 24 اور پولس کی سواری کے لئے بھی گھو ڑے رکھیں تا کہ اسے صوبہ دار فیلکس کے پاس سلامتی سے پہنچا دیں۔” 25 پلٹن کے سردار نے اس طرح ایک خط لکھا:

26 کلو دیس لوبیاسیہ خط

فلیکس بہادر حاکم کو

نیک تمناؤں کے ساتھ لکھ رہا ہے-

27 اس شخص کو بھی یہودیوں نے پکڑ کر مارڈالنا چاہا مگر جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ روم کا شہری ہے تو میں نے موقع پر اپنے سپا ہیوں کی مدد سے اس کو بچا لیا۔ 28 میں نے یہ معلوم کر نا چاہا کہ وہ کس لئے اس پر نالش کرنا چاہتے ہیں اس لئے میں اس کے ساتھ صدر عدالت میں گیا۔ 29 تب یہ معلوم ہوا کہ وہ اپنی شریعت کے مسئلوں کی بات پر الزا مات لگا رہے ہیں لیکن اس پر ایسا کوئی الزام نہیں لگایا گیا کہ قتل یا قید موجب بنے۔ 30 مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہودی اس کو قتل کر نے کا منصوبہ بنا رہے ہیں اس لئے میں نے اس کو تمہا رے پاس روا نہ کیا اور نالش کر نے وا لوں سے بھی کہا ہے کہ اپنا دعویٰ وہ تمہا رے سامنے پیش کریں۔

31 سپا ہیوں نے ویسا ہی کیا جیسا انہیں کہا گیا۔ سپا ہیوں نے پولس کو لیا اور اس رات اسے شہرانیپترس پہنچا دیا۔ 32 دوسرے دن سپا ہی پولس کو گھو ڑے کی پیٹھ پر قیصریہ لے گئے لیکن دیگر سپا ہی اور نیزہ بردار واپس قلعہ یروشلم کو آئے۔ 33 گھوڑسوار قیصریہ پہنچ کر گورنرفلیکس کو خط دیا اور پولس کو بھی اس کے سامنے پیش کیا۔

34 حاکم نے خط پڑھا اور پو لس سے کہا، “تمہا را تعلق کس ملک سے ہے؟” اور حاکم کو معلوم ہوا کہ پو لس سلیکیہ کا ہے۔ 35 تب حاکم نے کہا، “میں تمہا را مقدمہ اس وقت سنوں گا جب تک وہ نہ آجا ئیں جو تمہاری مخالفت میں ہیں یہاں آئیں۔” پھر حاکم نے حکم دیا کہ اسے اس محل میں رکھا جائے جس کو ہیرودیس نے بنا یا تھا۔

Footnotes

  1. رسولوں 23:5 اِقتِباس خروج ۲۸:۲۲

23 Paul looked straight at the Sanhedrin(A) and said, “My brothers,(B) I have fulfilled my duty to God in all good conscience(C) to this day.” At this the high priest Ananias(D) ordered those standing near Paul to strike him on the mouth.(E) Then Paul said to him, “God will strike you, you whitewashed wall!(F) You sit there to judge me according to the law, yet you yourself violate the law by commanding that I be struck!”(G)

Those who were standing near Paul said, “How dare you insult God’s high priest!”

Paul replied, “Brothers, I did not realize that he was the high priest; for it is written: ‘Do not speak evil about the ruler of your people.’[a](H)

Then Paul, knowing that some of them were Sadducees(I) and the others Pharisees, called out in the Sanhedrin, “My brothers,(J) I am a Pharisee,(K) descended from Pharisees. I stand on trial because of the hope of the resurrection of the dead.”(L) When he said this, a dispute broke out between the Pharisees and the Sadducees, and the assembly was divided. (The Sadducees say that there is no resurrection,(M) and that there are neither angels nor spirits, but the Pharisees believe all these things.)

There was a great uproar, and some of the teachers of the law who were Pharisees(N) stood up and argued vigorously. “We find nothing wrong with this man,”(O) they said. “What if a spirit or an angel has spoken to him?”(P) 10 The dispute became so violent that the commander was afraid Paul would be torn to pieces by them. He ordered the troops to go down and take him away from them by force and bring him into the barracks.(Q)

11 The following night the Lord stood near Paul and said, “Take courage!(R) As you have testified about me in Jerusalem, so you must also testify in Rome.”(S)

The Plot to Kill Paul

12 The next morning some Jews formed a conspiracy(T) and bound themselves with an oath not to eat or drink until they had killed Paul.(U) 13 More than forty men were involved in this plot. 14 They went to the chief priests and the elders and said, “We have taken a solemn oath not to eat anything until we have killed Paul.(V) 15 Now then, you and the Sanhedrin(W) petition the commander to bring him before you on the pretext of wanting more accurate information about his case. We are ready to kill him before he gets here.”

16 But when the son of Paul’s sister heard of this plot, he went into the barracks(X) and told Paul.

17 Then Paul called one of the centurions and said, “Take this young man to the commander; he has something to tell him.” 18 So he took him to the commander.

The centurion said, “Paul, the prisoner,(Y) sent for me and asked me to bring this young man to you because he has something to tell you.”

19 The commander took the young man by the hand, drew him aside and asked, “What is it you want to tell me?”

20 He said: “Some Jews have agreed to ask you to bring Paul before the Sanhedrin(Z) tomorrow on the pretext of wanting more accurate information about him.(AA) 21 Don’t give in to them, because more than forty(AB) of them are waiting in ambush for him. They have taken an oath not to eat or drink until they have killed him.(AC) They are ready now, waiting for your consent to their request.”

22 The commander dismissed the young man with this warning: “Don’t tell anyone that you have reported this to me.”

Paul Transferred to Caesarea

23 Then he called two of his centurions and ordered them, “Get ready a detachment of two hundred soldiers, seventy horsemen and two hundred spearmen[b] to go to Caesarea(AD) at nine tonight.(AE) 24 Provide horses for Paul so that he may be taken safely to Governor Felix.”(AF)

25 He wrote a letter as follows:

26 Claudius Lysias,

To His Excellency,(AG) Governor Felix:

Greetings.(AH)

27 This man was seized by the Jews and they were about to kill him,(AI) but I came with my troops and rescued him,(AJ) for I had learned that he is a Roman citizen.(AK) 28 I wanted to know why they were accusing him, so I brought him to their Sanhedrin.(AL) 29 I found that the accusation had to do with questions about their law,(AM) but there was no charge against him(AN) that deserved death or imprisonment. 30 When I was informed(AO) of a plot(AP) to be carried out against the man, I sent him to you at once. I also ordered his accusers(AQ) to present to you their case against him.

31 So the soldiers, carrying out their orders, took Paul with them during the night and brought him as far as Antipatris. 32 The next day they let the cavalry(AR) go on with him, while they returned to the barracks.(AS) 33 When the cavalry(AT) arrived in Caesarea,(AU) they delivered the letter to the governor(AV) and handed Paul over to him. 34 The governor read the letter and asked what province he was from. Learning that he was from Cilicia,(AW) 35 he said, “I will hear your case when your accusers(AX) get here.” Then he ordered that Paul be kept under guard(AY) in Herod’s palace.

Footnotes

  1. Acts 23:5 Exodus 22:28
  2. Acts 23:23 The meaning of the Greek for this word is uncertain.