Add parallel Print Page Options

بادشا ہ کا نحمیاہ کو یروشلم بھیجنا

یہ بادشا ہ ارتخششتا کے بیسویں سال کے نیسان کا مہینہ تھا جب بادشا ہ کے لئے مئے لی گئی تھی۔ تو میں نے اس مئے کو لیا اور بادشاہ کو دے دیا۔ میں پہلے جب بادشا ہ کے ساتھ تھا تو میں کبھی رنجیدہ نہیں ہوا تھا۔ تب بادشا ہ نے مجھ سے پو چھا ، “تو اتنا رنجیدہ کیو ں ہے ؟ تو بیمار نہیں ہے۔ یہ صرف دل کی افسردگی کی وجہ ہے۔”

اور میں بہت زیادہ ڈرا ہوا تھا۔ اور میں نے بادشا ہ سے کہا، “بادشا ہ ہمیشہ جیتا رہے۔میرا چہرہ اُداس کیوں نہ ہو نا چا ہئے ؟ وہ شہر جس میں میرے باپ دادا دفن ہیں وہ برباد ہو رہا ہے اور شہر کے پھا ٹک آ گ سے تباہ ہو گئے ہیں۔”

تب بادشا ہ نے مجھ سے کہا، “اس کے لئے تو مجھ سے کیا کروانا چا ہتا ہے ؟” تب میں نے آسمان کے خدا سے دعا کی۔ پھر میں نے بادشا ہ کو جواب دیتے ہو ئے کہا، “اگر یہ بادشا ہ کو خوش کرتا ہے او ر اگر میں آپ کا خادم آ پ کو خوش کر رہا ہوں تو براہ کرم مجھے یہودا ہ کے شہر یروشلم بھیج دیجئے جہاں پر میرے باپ دادا دفن ہیں۔ اور میں دوبارہ اس شہر کو بنانا چا ہتا ہوں۔”

اور بادشا ہ نے ملکہ کے ساتھ جو کہ اس کے بغل میں بیٹھی ہو ئی تھی مجھ سے کہا ، “تمہا را سفر کتنا لمبا ہو گا اور تو کب تک وا پس آئے گا ؟”

بادشا ہ مجھے بھیجنے کے لئے خوش تھا اس لئے میں نے ان سے کہا کہ میں کتنے دن دور رہو ں گا۔ میں نے بادشا ہ سے یہ بھی کہا ، “اگر یہ بادشا ہ کو خو ش کرتا ہے تو دریائے فرات کے مغربی علاقے کے گورنروں کو دکھانے کیلئے مجھے خط دئے جا ئیں۔ جو کہ یہودا ہ تک جانے کیلئے میرا ادھر سے گذرنا ممکن بنا ئے گا۔ مجھے بادشا ہ کے جنگل کا نگراں کار آسف کے نام سے بھی خط چا ہئے تا کہ وہ محل کے پھاٹک کے بیم کے لئے ، مکان کے لئے ، ہیکل کے اطراف کی دیواروں، شہر کی دیواروں کے لئے ،اور اس گھر کے لئے جس میں میں ٹھہرو ں گا مجھے لکڑی میسر کرائے گا۔”

اس لئے بادشاہ نے ان خطوں کو مجھے دیا کیوں کہ خدا مجھ پر مہربان تھا۔

تب میں دریائے فرات کے مغربی علاقے کے گورنر کے پاس گیا اور میں نے وہ خطوط جو بادشا ہ میرے ساتھ تھا ان لوگو ں کے لئے بھیجے تھے دے دیئے۔ بادشا ہ نے میرے ساتھ فوجی کپتان اور گھوڑسوار سپاہیوں کو بھی بھیجے تھے۔ 10 سنبلط اور طوبیاہ نامی دو آدمیو ں نے میرے مشن کے متعلق سُنا۔ وہ لوگ بہت غصے میں آئے یہ جان کر کہ کو ئی شخص بنی اسرائیلیوں کی مدد کے لئے آیا ہے۔ سنبلط حورون کا رہنے وا لا تھا اور طوبیاہ عمونی عہدے دار تھا۔

نحمیاہ کا یروشلم کی دیواروں کی جانچ کرنا

11-12 میں یروشلم گیا اور وہاں تین دِن تک ٹھہرا رہا۔ میں اور کچھ لوگ جو کہ میرے ساتھ تھے رات میں اُٹھے۔یروشلم شہر کے لئے کچھ کرنے کی جو بات میرے خدا نے میرے دِل میں ڈا لی تھی وہ میں نے کسی کو بھی نہیں کہا اور ہم لوگوں کے ساتھ کو ئی گھو ڑا نہیں تھا۔ سوا ئے اس کے جس پر کہ میں سوار تھا۔ 13 اور رات میں میں وادی کے پھا ٹک سے با ہر گیا۔ اژ دھا کے چشمے سے ہو تے ہو ئے کو ڑے کے پھا ٹک تک گیا اور میں نے یروشلم کی ٹو ٹی ہو ئی دیوار کی اور دیوار کے پھاٹکو ں کی جو آ گ سے جل کے تباہ ہو گئے تھے جانچ کی۔ 14 تب میں چشمہ کے پھاٹک اور بادشا ہ کے تالاب کی طرف چلا۔لیکن جس گھوڑا پر میں سوار تھا اس کے گذرنے کا کو ئی راستہ نہیں تھا۔ 15 اس لئے میں رات میں وادی سے ہو تے ہو ئے اوپر چلا اور دیوار کی جانچ کی۔ پھر میں چاروں طرف گھو ما اور وادی سے ہو تے ہو ئے اندر چلا گیا۔ 16 اور عہدیداروں کو یہ کبھی معلوم نہیں ہوا تھا کہ میں کہاں گیا تھا یا میں کیا کر رہا تھا۔ اور میں نے ان یہودی ساتھیوں کو ،کا ہنوں کو ، بادشا ہ کے خاندان کے لوگوں کو ، حاکموں کو اور دوسرے لوگ جو کام کر رہے تھے کسی کو بھی نہیں بتا یا۔

17 تب میں نے ان تمام لوگوں سے کہا ، “ہم یہاں جن مصیبتوں میں ہیں انہیں تم د یکھ سکتے ہو۔یروشلم کھنڈرات میں پڑا ہوا ہے اس کے دروازے آ گ سے جل چکے ہیں آؤ ہم یروشلم کی دیوارو ں کو پھر سے بنا ئیں تا کہ ہم اور شرمندہ نہ ہو سکیں۔”

18 میں نے ان لوگو ں سے کہا کہ میرا خدا مجھ پر کتنا مہربان تھا اور ان باتو ں کو بھی جو کہ بادشا ہ نے مجھ سے کہا تھا۔ اور ان لوگوں نے کہا، “آؤ ہم لوگ اٹھیں اور بنا ئیں۔” پھر وہ لوگ اس اچھے کام کو کرنے کو تیار ہو ئے۔ 19 لیکن حُورون کا سنبلط ، طوبیاہ عمونی عہدیدار اور عربی جیشم نے سنا کہ ہم لوگ اسے دوبارہ بنا رہے ہیں۔ تو انہوں نے ہم لوگو ں کا مذاق اُڑا یا اور حقیر سمجھا۔ یہ کیا ہے جو تم لوگ کر رہے ہو ! کیا تم لوگ بادشا ہ کے خلاف بغاوت کر رہے ہو ؟ ”

20 اور میں نے ان لوگو ں کو جواب دیا ، یہ کہتے ہو ئے ، “آسمان کا خدا ہماری کامیابی میں مدد کرے گا اور ہم خدا کے خادم پھر سے بنانا شروع کریں گے۔اس کام میں ہم لوگو ں کی مدد کرنے کے لئے تم کو اجازت نہیں ہے۔ یروشلم کی اس زمین میں تمہا را کو ئی حصّہ نہیں ہے اور نہ ہی کو ئی تا ریخی دعویٰ ہے۔”

Artaxerxes Sends Nehemiah to Jerusalem

In the month of Nisan in the twentieth year of King Artaxerxes,(A) when wine was brought for him, I took the wine and gave it to the king. I had not been sad in his presence before, so the king asked me, “Why does your face look so sad when you are not ill? This can be nothing but sadness of heart.”

I was very much afraid, but I said to the king, “May the king live forever!(B) Why should my face not look sad when the city(C) where my ancestors are buried lies in ruins, and its gates have been destroyed by fire?(D)

The king said to me, “What is it you want?”

Then I prayed to the God of heaven, and I answered the king, “If it pleases the king and if your servant has found favor in his sight, let him send me to the city in Judah where my ancestors are buried so that I can rebuild it.”

Then the king(E), with the queen sitting beside him, asked me, “How long will your journey take, and when will you get back?” It pleased the king to send me; so I set a time.

I also said to him, “If it pleases the king, may I have letters to the governors of Trans-Euphrates,(F) so that they will provide me safe-conduct until I arrive in Judah? And may I have a letter to Asaph, keeper of the royal park, so he will give me timber to make beams for the gates of the citadel(G) by the temple and for the city wall and for the residence I will occupy?” And because the gracious hand of my God was on me,(H) the king granted my requests.(I) So I went to the governors of Trans-Euphrates and gave them the king’s letters. The king had also sent army officers and cavalry(J) with me.

10 When Sanballat(K) the Horonite and Tobiah(L) the Ammonite official heard about this, they were very much disturbed that someone had come to promote the welfare of the Israelites.(M)

Nehemiah Inspects Jerusalem’s Walls

11 I went to Jerusalem, and after staying there three days(N) 12 I set out during the night with a few others. I had not told anyone what my God had put in my heart to do for Jerusalem. There were no mounts with me except the one I was riding on.

13 By night I went out through the Valley Gate(O) toward the Jackal[a] Well and the Dung Gate,(P) examining the walls(Q) of Jerusalem, which had been broken down, and its gates, which had been destroyed by fire. 14 Then I moved on toward the Fountain Gate(R) and the King’s Pool,(S) but there was not enough room for my mount to get through; 15 so I went up the valley by night, examining the wall. Finally, I turned back and reentered through the Valley Gate. 16 The officials did not know where I had gone or what I was doing, because as yet I had said nothing to the Jews or the priests or nobles or officials or any others who would be doing the work.

17 Then I said to them, “You see the trouble we are in: Jerusalem lies in ruins, and its gates have been burned with fire.(T) Come, let us rebuild the wall(U) of Jerusalem, and we will no longer be in disgrace.(V) 18 I also told them about the gracious hand of my God on me(W) and what the king had said to me.

They replied, “Let us start rebuilding.” So they began this good work.

19 But when Sanballat(X) the Horonite, Tobiah the Ammonite official and Geshem(Y) the Arab heard about it, they mocked and ridiculed us.(Z) “What is this you are doing?” they asked. “Are you rebelling against the king?”

20 I answered them by saying, “The God of heaven will give us success. We his servants will start rebuilding,(AA) but as for you, you have no share(AB) in Jerusalem or any claim or historic right to it.”

Footnotes

  1. Nehemiah 2:13 Or Serpent or Fig